عید الفطر کا دن اس اعتبار سے بیحد اہم ہے کہ آغاز اسلام سے آج تک عید منائی جارہی ہے۔ تاریخ کا یہ طو یل راستہ اپنے دامن میں عبرت انگیز انقلابات اور نصیحت آموز واقعات کی ایک دنیا سمیٹے ہوئے ہے۔ عید کا دن اسلامی اجتماعیت اور اتحاد واتفاق کا آئینہ دار ہے۔ اتحاد واتفاق کی اہمیت کے پیش نظراسلام نے مختلف عبادات میں اجتماعیت کو بر قرار رکھا ہے۔ روزانہ پانچ وقت نماز ادا کرنے کی لیے مسلمان ایک مسجد میں جمع ہوتے ہیں۔ فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ایک ہی وقت میں قیام ورکوع، سجدہ وسلام‘ اسلام یکجہتی اور ہم آہنگی کا تاثر دیتا ہے۔ اسی طرح جمعہ کا اجتماع روز مرہ کے اجتماع سے اور عید کا اجتماع جمعہ کے اجتماع سے بڑا ہوتا ہے۔ اس کے بعد حج کے اجتماع کی وسعت اور عظمت توعدیم المثال ہے۔
رمضان المبارک اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے لیے رحمتوں کا مہینہ قرار دیا ہے۔
عید الفطر کے موقع پر تمام مسلمان عبادت کے لیے عید گاہ میں جمع ہوتے ہیں۔ سب کی زبانوں پر تکبیر وتحمید، تسبیح وتہلیل کے ایک ہی کلمات جاری ہوتے ہیں۔ ا للہ کے حکم سے مہینہ بھر کے روزے رکھ کر اللہ کے بندے اس کی رحمت ومغفرت کی لو لگائے عید گاہ آتے ہیں۔ اس روح پرور سماں اور پر کیف منظر کو دیکھ کر ہر مسلمان دلی مسرتیں محسوس کرتا ہے۔ اور ارباب فکر یہ سوچتے ہیں کہ جس طرح مسلمان عید گاہ کے اس مقام پر یکجان ہیں اسی طرح زندگی کے ہر پہلو پر متحد ومتفق ہو جائیں تو ان کے مسائل بآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ اور دوسروں کے سامنے اپنا وزن ثابت کر سکتے ہیں۔ زندگی کے میدان میں انقلاب وترقی اللہ تعالی کی سنت ہے۔ اس صورت حال کا ساتھ دینے اور اور مقابلہ کے میدان میں کامیابی حاصل کرنے کا دارومدار بھی اسی اتحاد واتفاق پر ہے۔ زندگی کےمشکلات حل کرنے کے لیے ہمیں مذہب، سیاست، تعلیم اور اقتصادی شعبوں میں متحد اور پیہم کوشش کی ضرورت ہے۔۔ وحدت امت کا شعور مسلمانوں کو دنیا کے مختلف حصوں میں ان کے دینی بھائیوں کے ساتھ پیش آنے والے ظالمانہ برتاؤ پر بے قرار بنائے ہوئے ہے۔ دنیا والے اسے کوئی اور نام دے رہے ہیں لیکن حقیقت میں دینی اخوت ومحبت کا تقاضہ ہے۔ اور اسی طرح اسلام نے انسانی اخوت کا نظریہ بھی پیش کیا ہے جسے مسلم حکمرانوں اور عام لوگوں نے عملی شکل دی ہے۔
عید الفطر کا یہ موقع دونوں نوعیت کے رشتوں کو فروغ اور تقویت دینے کا متقاضی ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
{ إن ھذہ أمتکم أمۃ واحدۃ }
رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ عبادت وریاضت کا مہینہ ہے، حصول تقوی کا مہینہ ہے، اور یہی عبادت کی غرض وغایت ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
{ یا أیھا الناس اعبدوا ربکم الذی خلقکم والذین من قبلکم لعلکم تتـقون }
اے لوگو ! اپنے اس رب کی عبادت کرو جو تمہارا اور تم سے پہلے لوگوں کا خالق ہے تاکہ تم (عبادت کے ذریعہ) تقوی حاصل کرو۔
معلوم ہوا کہ اسلامی عبادت کی اصل غرض وغایت حصول تقوی ہے، جس کے ذرائع نماز، روزہ، حج زکاۃ کے ساتھ ساتھ تقوی، اخلاص، توکل علی اللہ اور صبرو شکر بھی ضروری ہیں جن کا تعلق انسان کے دل سے ہے۔ اور یہ وہ عبادات ہیں جو اسلام کی روح اور تمام اعمال کا جوہر ہیں۔
قارئین کرام !اس دن خوشی کا اظہار کرنا دینی شعار ہے۔ خوشیاں آتی اور گذر جاتی ہیں مگر سرور وانبساط کے اس ہجوم میں ہم سے مطالبہ ہے کہ اس پہلو پر بھی غورکرنے کی زحمت برداشت کریں کہ ہر دن کی طرح عید کا دن بھی گذر جاتا ہے، لیکن ہمارے مسائل ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔ اور ان کو حل کرنے کی ذمہ داری ہماری دوش ناتواں پر بر قرار رہتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہر نئی عید نئے مسائل اور نئے چیلنج لے کر آتی ہے۔ اور ھمیں لہذا عید کے دن کا تقاضا یہ ہے کہ دلوں کی نفرتیں بھلا کر بلا تفریق ہر کسی سے ملیں۔ اس دن آپسی رنجشوں اور اختلافات کو درگزر کرکے محبت واخوت اور بھائی چارگی کا پیغام عام کریں۔
عید کی خوشیوں کے حقیقی حق دار وہی لوگ ہیں جنہوں نے رمضان المبارک کا دل سے احترام کیا۔اور اللہ کے حکم کے مطابق اس کے دنوں کو روزوں، تلاوتوں، عبادتوں اور خیروخیرات سے معمور کیا۔ اور اس کی شبوں کو قیام اللیل، تراویح، ذکر واذکار اور دعا ومناجات میں صرف کیا۔ ماہ صیام کا قومی اور ملی فائدہ ہی ہے کہ صاحب توفیق مسلمانوں کے دل میں اپنی قوم کے مفلس اور محروم افراد کی عملی ہم دردی کا جذبہ پیدا ہو۔ اسی لیے صدقہ فطر کو مشروع قراردیا گیا ہے۔ صدقہ فطر کا مقصد یہ ہے کہ غریب، محتاج اور نادار بھی عید کی خوشی اور مسرت میں شریک ہوں، اور وہ بھی اپنے بال بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کر لیں اور انہیں دردر کی خاک چھاننی نہ پڑے۔ گویا خوشی اور شادمانی کے اس مبارک دن کوئی غریب رشتہ دار یا پڑوسی بھوکا نہ رہے، اس لیے عید کی نماز سے پہلے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم ہے۔
اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ اسلام نے اخوت وہمدردی اور اتحاد وتعاون کے مسئلہ کو کتنی اہمیت دی ہے۔ انسداد گدا گری کی تحریک دنیا کے مختلف حصوں میں چلتی رہتی ہے لیکن اس لعنت کو جس طرح اسلام نے ختم کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک طرف دولت مند طبقہ کو مختلف مواقع میں دولت خرچ کرنے کی ترغیب دی تودوسری طرف غریبوں کو حکم ہے کہ حد درجہ مجبوری کے بغیر ہاتھ نہ پھیلائیں۔ ساتھ ہی جو لوگ فقر کے باوجود سوال نہیں کرتے ان کی تعریف کی گئی ہے۔
اختتام سے پہلے اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم اس ملک میں مختلف قوموں کے ساتھ سکونت پذیر ہیں۔ ہمارے تمام اعمال اور جملہ حرکات وسکنات پر ان کی نظر ہے۔ عید کے اس عظیم الشان تہوار کو ہمیں اس طرح منانا چاہیے کہ ہم وطنوں کو اسلام کی عظمت کا احساس ہو۔ اس حسین موقع پر ایسی تہذیب اور شائستگی کا مظاہرہ کریں کی تمام دیکھنے والی اعلی کردار سے متاثر ہوں۔ اور انہیں یہ سمجھنے کا موقع فراہم ہو کہ دین اسلام میں مسرت وشادمانی کے لمحات میں بھی سنجیدگی ومتانت کا مظاہرہ ہوتا ہے، اور تیوہار منانے والے اس موقع پر بھی اپنے مالک حقیقی کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں۔ عید الفطر کا سنہری موقع ہمیں خوشیوں سے مالا مال کرنے کے ساتھ ساتھ ذمہ داریوں کا ایک بوجھ بھی ہم پر ڈال رہا ہے۔ امید ہے کہ عید منانے والے برادران اسلام ان پہلوؤں پر نظر رکھیں گے۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمارے نیک اعمال اور روزوں کو قبول فرمائے اور اس ماہ مقدس میں جو تقصیر ہوئی ہے اسے عفو ودر گذر کرے، اور ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے۔ صحت وتندرستی عطا کرے۔ آمین_