شب قدر اور اس کی فضیلت
رمضان المبارک کی راتوں میں سے ایک رات شب قدر کہلاتی ہے‘ جو بہت ہی قدر و منزلت اور خیر و برکت کی حامل رات ہے۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ نے کیونکہ ہزار مہینوں سے افضل قرار دیا ہے اور ہزار مہینے کے تراسی برس چار ماہ بنتے ہیں ،اس لئے ’’خیر من الف شھر‘‘ کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ کریم جتنا زیادہ اجر عطا فرمانا چاہے گا‘ عطا فرما دے گا۔ اس اجر کا اندازہ انسان کے بس سے باہر ہے۔
شب قدر کا معنی و مفہوم
امام زہریؒ فرماتے ہیں کہ قدر کے معنی مرتبہ کے ہیں ‘چونکہ یہ رات باقی راتوں کے مقابلے میں شرف و مرتبہ کے لحاظ سے بلند ہے‘ اس لئے اسے ’’لیلۃ القدر‘‘ کہا جاتا ہے۔(تفسیر القرطبی‘ ۲۰: ۱۳۰)حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نصف شعبان کی رات کو تمام فیصلے فرما لیتا ہے اور چونکہ اس رات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک سال کی تقدیر و فیصلے کا قلمدان فرشتوں کو سونپا جاتا ہے ‘اس وجہ سے یہ ’’لیلۃ القدر‘‘ کہلاتی ہے۔(تفسیر القرطبی‘ ۲۰: ۱۳۰)اس رات کو قدر کے نام سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے:اس رات میں اللہ تعالی نے اپنی قابل قدر کتاب‘ قابل قدر امت کے لئے صاحبِ قدر رسول کی معرفت نازل فرمائی‘ یہی وجہ ہے کہ اس سورۃ میں لفظ قدر تین دفعہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر‘ ۳۲:۲۸)قدر کے معنی تنگی کے بھی ہیں۔ اس معنی کے لحاظ سے اس رات آسمان سے فرش زمین پر اتنی کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ ہو جاتی ہے۔ (تفسیر الخازن‘ ۴:۳۹۵)۔
یہ رات کیوں عطا ہوئی؟
اس کے حصول کا سب سے اہم سبب نبی اکرمؐ کی اس امت پر شفقت اور آپؐ کی غم خواری ہے۔ موطا امام مالک میں ہے کہ:جب رسول پاکؐکو سابقہ امتوں میںلوگوں کی طویل عمروں بارے آگاہ فرمایا گیا تو آپؐنے ان کے مقابلے میں اپنی امت کے لوگوں کی عمر کو کم دیکھتے ہوئے یہ خیال فرمایا کہ میری امت کے لوگ اتنی کم عمر میں سابقہ امتوں کے برابر عمل کیسے کر سکیں گے؟(پس) آپؐ نے بارگاہ اقدس میں اپنی امت کیلئے آرزو کرتے ہوئے جب یہ دعا فرمائی کہ اے میرے رب میری امت کے لوگوں کی عمریں کم ہونے کی وجہ سے نیک اعمال بھی کم رہ جائیں گے تو اس پر اللہ تعالیٰ نے شب قدر عنایت فرمائی۔(تفسیر الخازن‘ ۴:۳۹۷)۔ رسول خداؐ کا ارشاد پاک ہے:یہ مقدس رات اللہ تعالی نے فقط میری امت کو عطا فرمائی ہے سابقہ امتوں میں سے یہ شرف کسی کو بھی نہیں ملا۔(الدر المنثور‘ ۶:۳۷۱)
فضیلتِ شب قدر:احادیث کی روشنی میں
سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا:جس شخص نے شب قدر میں اجر و ثواب کی امید سے عبادت کی‘ اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔(صحیح البخاری‘ ۱:۲۷۰‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: ۱۹۱۰)اس ارشاد نبویؐ میں جہاں لیلۃ القدر کی ساعتوں میں ذکر و فکر‘ عبادت و طاعت کی تلقین کی گئی ہے‘ وہاں اس بات کی طرف بھی متوجہ کیا گیا ہے کہ عبادت سے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی مقصود ہو‘ ریاکاری یا بدنیتی نہ ہو اور آئندہ عہد کرے کہ میں برائی کا ارتکاب نہیں کروں گا‘ چنانچہ اس شان کے ساتھ عبادت کرنے والے بندے کے لئے یہ رات مژِدئہ مغفرت بن کر آتی ہے۔ سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر ایک مرتبہ رسول پاکؐنے فرمایا:یہ جو ماہ تم پر آیا ہے‘ اس میں ایک ایسی رات ہے‘ جو ہزار ماہ سے افضل ہے‘ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا‘ گویا وہ خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ِخیر وبرکت ہو۔(سنن ابن ماجہ ، کتاب الصیام)ایسے شخص کی محرومی میں واقعتا کیا شک ہو سکتاہے‘ جو اتنی بڑی نعمت کو غفلت کی وجہ سے گنوا دے۔ جب انسان معمولی معمولی باتوں کے لئے کتنی راتیں جاگ کر بسر کر لیتا ہے تو اسی سال کی عبادت سے افضل عبادت کے لئے دس راتیں کیوں نہیں جاگ سکتا۔حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول خداؐ نے لیلۃ القدر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:شب قدر کو جبرائیل امینؑ فرشتوں کے جھرمٹ میں زمین پر اتر آتے ہیں اور ہر شخص کے لئے دعائے مغفرت کرتے ہیں جو کھڑے‘ بیٹھے کسی بھی حال میں اللہ کو یاد کر رہا ہو۔(شعب الایمان)۔
دیگر اہم مخفی امور مثلاً اسمِ اعظم‘ جمعہ کے روز قبولیت دعا کی گھڑی کی طرح اس رات کو بھی مخفی رکھا گیا۔اگر اسے مخفی نہ رکھا جاتا تو عمل کی راہ مسدود ہو جاتی۔اللہ تعالیٰ کو چونکہ اپنے بندوں کا رات کے اوقات میں جاگنا اور بیدار رہنا محبوب ہے‘ اس لئے رات متعین نہ فرمائی ‘تاکہ اس کی تلاش میں متعدد راتیں عبادت میں گزریں۔علاوہ ازیں ایک نہایت اہم وجہ اس کے مخفی کر دینے کی جھگڑا بھی ہے ‘ حضرت عبادہ بن صامتؓ سے مروی حدیث میں موجود ہے :ایک مرتبہ رسالتمآبﷺ شب قدر کے تعین کے بارے میں آگاہ کرنے کے لئے گھر سے باہر تشریف لائے‘ لیکن راستہ میں دو آدمی آپس میں جھگڑ رہے تھے۔ حضورﷺ نے فرمایا میں تمہیں شب قدر کے بارے میں اطلاع دینے آیا تھا‘ مگر فلاں فلاں کی لڑائی کی وجہ سے اس کاتعین اٹھا لیا گیا۔(صحیح البخاری‘ ۱:۲۷۱‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: ۱۹۱۹)۔
شب قدر کے تعین کے بارے میں تقریباً پچاس اقوال ہیں‘ ان میں سے دو اقوال نہایت ہی قابل توجہ ہیں۔رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں سے ایک ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ رسالتمآبﷺنے فرمایا:لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔(صحیح البخاری‘ ۱:۲۷۰‘ کتاب الصیام‘ رقم حدیث: ۱۹۱۳)چونکہ اعتکاف کا مقصد بھی تلاشِ لیلۃ القدر ہے‘ اس لئے ان آخری ایام کا اعتکاف سنت قرار دیا گیا۔ نبی اکرمﷺ کو جب تک اللہ تعالیٰ نے اس شب قدر کی تعین سے آگاہ نہیں فرمایا تھا‘ آپﷺ اس کی تلاش کے لئے پورا رمضان اعتکاف کرتے تھے‘ لیکن جب آگاہ فرما دیا گیا تو وصال تک صرف آخری عشرہ کا اعتکاف فرماتے رہے۔
رمضان المبارک کی ستائسویں شب شبِ قدر ہے۔ جمہور علماء اسلام کی یہی رائے ہے۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں:علماء کا شب قدر کی تعین کے بارے میں اختلاف ہے‘ لیکن اکثریت کی رائے یہی ہے کہ لیلۃ القدر ستائیسویں شب ہے۔( تفسیرالقرطبی‘ ۲۰:۱۳۴) علامہ آلوسیؒ لکھتے ہیں:علماء کی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ طاق راتوں میں سے ستائیسویں ہے۔(روح المعانی‘ ۳۰:۲۲۰)ترجمان القرآن حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور قاری قرآن حضرت ابی بن کعبؓ کی بھی یہی رائے ہے کہ رسالتمآبﷺ نے جو اس کی علامت بیان فرمائی ہے ‘وہ اسی رات میں پائی جاتی ہے۔سیدنا عبداللہ بن عباسؓ ستائیسویں کو شب قدر قرار دیتے ہوئے تین دلیلیں بیان کیا کرتے تھے۔ جس کو امام رازیؒ نے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا ہے۔لفظ لیلۃ القدر کے ۹ حروف ہیں اور اس کا تذکرہ تین دفعہ ہوا ہے اور مجموعہ ۲۷ ہو گا۔(تفسیر کبیر‘ ۲۳:۳۰)
سورۃ القدر کے کل ۳۰ الفاظ ہیں‘ جن کے ذریعے شب قدر کے بارے میں بیان کیا گیا ہے لیکن اس سورۃمیں جس لفظ کے ساتھ اس رات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ’’ ھی‘‘ ضمیر ہے اور یہ لفظ اس سورۃ کا ستائیسواں لفظ ہے۔سورۃ کے کل کلمات تیس ہیں (اور ان میں) ھی ستائیسواں کلمہ ہے۔سیدنا فاروق اعظمؓ نے حضرت ابن عباسؓ سے شب قدر کے تعین کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کو طاق عدد پسند ہے اور طاق عددوں میں سے بھی سات کے عدد کو ترجیح حاصل ہے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کی تخلیق میں سات کے عدد کو نمایاں کیا ہے مثلاً سات آسمان‘ سات زمین‘ ہفتہ کے دن سات‘ طواف کے چکر سات وغیرہ۔(تفسیر کبیر)
شب قدر کا وظیفہ
حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ میں نے رسالتمآبﷺ سے عرض کیا کہ شب قدر کا کیا وظیفہ ہونا چاہئے تو آپﷺنے ان الفاظ کی تلقین فرمائی:اے اللہ تو معاف کر دینے والا اور معافی کو پسند فرمانے والا ہے پس مجھے بھی معاف کر دے۔(مسند احمد بن حنبل‘۶:۱۷۱‘ ۱۸۲)
Goooooood coooooool