پاکستان سمیت دنیا بھر میں والد سے محبت کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس دن کا مقصد بچے کے لیے والد کی محبت اور والد کا اپنی اولاد کی تربیت میں کردار کو اجاگر کرنا ہے۔ آپ کا ہماری زندگی میں ہونے پر ہم آپ کے شکر گزار ہیں۔
شاعر نے اس نظم میں ہمارے باپ دادا کے لئے ہمارے اجتماعی احساسات کو راغب کیا ہے:
عزیز تر مجھے رکھتا ہے وہ رگ جاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
وہ ماں کے کہنے پہ کچھ رعب مجھ پہ رکھتا ہے
یہی ہے وجہ مجھے چومتے جھجھکتا ہے
وہ آشنا مرے ہر کرب سے رہے ہر دم
جو کھل کے رو نہیں پاتا مگر سسکتا ہے
جڑی ہے اس کی ہر اک ہاں فقط مری ہاں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا ہے
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا ہے
وہ لوٹتا ہے کہیں رات دیر کو دن بھر
وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا ہے
گلے ہیں پھر بھی مجھے ایسے چاک داماں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے
پرانا سوٹ پہنتا ہے کم وہ کھاتا ہے
مگر کھلونے مرے سب خرید لاتا ہے
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا ہے جی بھر کے
نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا ہے
مرے بغیر ہیں سب خواب اس کے ویراں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہیں ماں سے